ملک ریاض کے حالیہ بیان نے ایک بار پھر ملکی سیاست اور طاقتور حلقوں میں ہلچل مچادی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ حقائق سامنے لائیں تو کئی چہرے شرمندگی کا سامنا کریں گے۔ اس حوالے سے عمران خان نے ملک ریاض سے اپیل کی ہے کہ وہ پچھلے 30 سالوں کے دوران ان سیاستدانوں، ججوں اور جرنیلوں کے نام قوم کے سامنے لائیں جنہوں نے ان سے مالی فوائد یا رشوت وصول کی تاکہ عوام کو معلوم ہو کہ کون اس بدعنوانی میں ملوث رہا۔
اڈیالہ جیل میں صحافیوں اور وکلاء سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا، “ملک ریاض کو چاہیے کہ وہ یہ انکشاف کریں تاکہ عوام جان سکے کہ جو لوگ آج الزامات لگا رہے ہیں وہ خود کس حد تک شفاف ہیں۔ قوم کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کون سا طبقہ اس کرپشن کے جال میں پھنسے رہا ہے۔”
عمران خان نے صاحبزادہ حامد رضا کے گھر پر غیر قانونی چھاپے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا، “یہ حکومت ایک طرف مذاکرات کا ڈھونگ رچاتی ہے اور دوسری طرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتی ہے۔ اس چھاپے کے بعد ہم نے مذاکراتی عمل فوری طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ حملہ صرف ایک شخص پر نہیں بلکہ ہماری مذاکراتی کمیٹی پر ہے، اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی نیت خراب ہے۔”
عمران خان نے اپنی جماعت کو ہدایت دی کہ تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا جائے تاکہ ملک میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں ہر طرف افراتفری کا عالم ہے، بلوچستان میں دہشت گردی جاری ہے، اور وہاں کے مسائل کا سیاسی حل تلاش نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے گمشدہ افراد کے مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ تحریک انصاف ان متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے اور یہ معاملہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے اٹھایا جائے گا۔
عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں مانگتے بلکہ صرف ملک اور قوم کی بہتری کے لیے بات کریں گے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سپریم کورٹ یا اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین سینئر ججوں پر مشتمل ایک جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے تاکہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات میں ملوث اصل کرداروں کا تعین کیا جا سکے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان واقعات میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ خود ملوث ہیں۔
آخر میں عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، “اس حکومت کو ترسیلات زر بھیجنا اپنے ہاتھ خون سے رنگنے کے مترادف ہے۔ یہ حکومت اپنے ہی شہریوں کے قتل عام میں ملوث ہے، اس لیے اس کا بائیکاٹ کریں۔