Table of Contents
Toggleدجالی منصوبے: فحاشی اور بے حیائی کا جال
السلام علیکم دوستوں! آج دنیا بھر میں دجال کے شیطانی منصوبے کے تحت اور شیطان کے پیروکاروں کی حمایت کی بدولت، فحاشی اور بے حیائی کا جال بڑی تیزی سے پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ فحاشی نہ صرف مرد و زن کے تعلقات کو نشانہ بنا رہی ہے بلکہ اب قوم لوط کے گھناؤنے عمل کا راستہ بھی آہستہ آہستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔
پاکستان جیسے روایت پرست اور بڑی حد تک مذہبی ملک میں بھی اس کے اثرات اس حد تک سرایت کر چکے ہیں کہ عوام کی بڑی تعداد سوشل میڈیا پر یہ کہتی نظر آتی ہے کہ اس سارے عمل میں کوئی برائی نہیں ہے اور یہ دو انسانوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ جیسے چاہیں رہیں اور جو چاہیں کریں۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ عوام کی جانب سے اس قدر قبولیت ملنے کے بعد پاکستانی ڈرامہ اور فلم انڈسٹری نے بھی ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
ڈرامہ سیریل “برز” کی حقیقت
حالیہ دنوں میں ایک ڈرامہ سیریل “برز” پاکستانی فلم ہاؤس جی ای انٹرٹینمنٹ کی جانب سے بنایا گیا ہے۔ تاہم، عوامی احتجاج اور بحث و مباحثے کی وجہ سے اسے پاکستان میں آن ایئر کرنے کی اجازت نہیں ملی، اور خوف کی وجہ سے اس ڈرامے کو بھارتی ویب سیریز کے پورٹل کو فروخت کر دیا گیا۔ اب یہ ڈرامہ بھلے ہی بھارت سے پیش کیا جا رہا ہے، لیکن اس کے تمام کردار پاکستانی ہیں، جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کی عوام کے درمیان دشمنی کے باوجود اعلیٰ طبقہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔
ڈرامہ “برز” کا شرعی مخالف مواد
ڈرامہ سیریل “برز” میں پاکستان کے ٹاپ ایکٹر اور سیلیبریٹی فواد خان نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس ڈرامے کا موضوع ہی اسلامی عقائد کے بالکل خلاف ہے۔ ڈرامے کا مرکزی خیال ایک ایسے بوڑھے شخص کے گرد گھومتا ہے جو اپنی فوت شدہ محبوبہ کو برزخ سے واپس لا کر اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق، برزخ وہ مقام ہے جہاں مرنے کے بعد ہماری روحیں اکٹھی کی جاتی ہیں اور قیامت تک وہیں رہتی ہیں۔
ہم جنس پرستی کا فروغ
اس ڈرامے میں نہ صرف دو ہم جنس پرستوں کے تعلقات کو معمول کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ چھوٹے بچوں تک کو متاثر کرنے کے لئے ایک باپ کو اپنے بچے کو یہ تعلیم دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ ہم جنس پرستی ایک معمول کی بات ہے۔ اس کے علاوہ، ڈرامے میں ایک بچے کو عورتوں کی طرح کپڑے پہنے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ اس ڈرامے میں نہ صرف ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی بات کی گئی ہے بلکہ اس میں کئی مناظر بھی شامل کئے گئے ہیں جو انسانی جذبات کو بھڑکانے اور معاشرتی بے چینی کا سبب بن سکتے ہیں۔
ہم جنس پرستی اور مغربی تہذیب
ہم جنس پرستی کوئی نیا عمل نہیں ہے۔ مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی تاریخ میں اس عمل کے نتیجے میں ایک عذاب کا ذکر ملتا ہے۔ قرآن کریم میں قوم لوط کے اس عمل کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں ان پر برپا ہونے والے عذاب کا بھی ذکر ہے۔ عیسائیوں اور یہودیوں کے مذہبی لٹریچر میں بھی اس عمل کی مذمت کی گئی ہے۔
ہماری ذمہ داری
آج یہ ڈرامے بن رہے ہیں تو کل ہماری آنے والی نسلیں یہی حرکتیں کرتی ہوئی نظر آئیں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس برائی کی جڑ کو ختم کیا جائے اور اپنی نسلوں کا مستقبل محفوظ کیا جائے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس فحاشی اور بے حیائی کے جال کو پہچانیں اور اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔